باب پنجم
’کتابِ مقدس‘ (پروٹسٹنٹ اردو بائبل) کے عہد نامہ قدیم کی پہلی کتاب، یعنی پیدایش کے باب ۴۹ میں حضرت یعقوبؑ (اسرائیل) کے متعلق ذکر ہیکہ انھوں نے اپنے آخری وقت میں اپنے بیٹوں کو اپنی الوداعی برکت اور دعا دینے کے لیے بلایا ۔ یہ ان کا قریباً آخری وقت تھا، جیساکہ اس سے پہلے والے باب ۴۸ کی آخری آیت (۴۸:۲۱) میں ارشاد ہے: ’اور اسرائیل نے یوسفؑ سے کہا میں تو مرتاہوں، لیکن خدا تمھارے ساتھ ہوگا او ر تم کو پھر تمھارے باپ داد ا کے ملک میں لے جائے گا‘۔ اس طرح یہ آپ کی وصیت کی حیثیت رکھتی ہے اور جس طرح حضرت موسیٰؑ نے اپنی آخری وصیت میں ایک طرف بنی اسرائیل کے اوصاف بیان کرکے انھیں دعائیں دینے کے ساتھ محمد رسول اللہﷺ کی آمد کی خبر دی ہے (استثنا باب ۳۳)، اسی طرح ان سے سینکڑوں سال پہلے حضرت یعقوبؑ نے بھی اپنے بیٹوں کو دعا دینے اور وصیت کرنے کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد کی پیشین گوئی بیان فرمائی تھی۔ چنانچہ’ نیواوکسفرڈاینو ٹیٹڈ بائبل‘ میں اس کے ضمن میں لکھا ہے:
Though the poem is depicted as a deathbed blessing by the text following it (...), this poem seems to have been originally designed as a prediction of the destiny, good and bad, of the tribes of Israel.۱
اگرچہ بعد میں آنے والا متن اس نظم کو بسترِ مرگ کی دعاے برکت کی حیثیت سے پیش کرتا ہے،(...)، تاہم لگتا یہ ہے کہ ابتداءً یہ نظم اسرائیل کے قبائل کی اچھی یا بری تقدیر کی پیشین گوئی کے طور پر مرتب کی گئی تھی۔
پیشین گوئی کامتن اردو ’کتابِ مقدس‘ سے درج ذیل ہے:
یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا۔ جب تک شیلوہ نہ آئے اور قومیں اس کی مطیع ہوں گی۔۲
’کلامِ مقدس‘(کیتھولک اُردو بائبل) میں اس آیت کے لیے یہ الفاظ درج ہیں:
یہوداہ سے حکمرانی کا عصا جدا نہ ہوگا۔ اور نہ ہی اس کے پاؤں میں سے بلم جاتا رہے گا۔ جب تک کہ نہ آئے شیلوہ ۔ اور قومیں اس کی تابعدار ہوں گی۔ ۳
اس پیشین گوئی کا محمدرسول اللہ ﷺ پر اتنا واضح اطلاق ہوتاہے کہ اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔ ذیل میں اس کے چند ایک انگریزی تراجم درج ہیں۔ سب سے پہلے یہ آیت ’مستند ترجمے‘(یا’کنگ جیمز ورشن‘[KJV] ) سے نقل کی جاتی ہے:
The sceptre shall not depart trom Judah nor a lawgiver from between his feet, until Shiloh come and unto him shall the gathering of the people be. ۴
اور یہوداہ سے عصاے اقتدار الگ نہ ہوگا، اور نہ اس کے پاؤں کے درمیان سے ایک شریعت دینے والا ، جب تک کہ شیلوہ نہیں آتا، او رلوگ اس کے پاس جمع ہوں گے۔
بائبل کے’ ریوائزڈ برکلے ورشن‘ (RBV) میں یہ آیت مندرجہ ذیل الفاظ میں درج ہے:
The sceptre shall not depart from Judah nor the leader\'s staff from between his feet, until Shiloh comes and him the people shall obey. ۵
عصاے اقتدار یہوداہ سے جدا نہ ہوگا، نہ اس کے پاؤں کے درمیان سے قائد کا عصا، جب تک کہ شیلوہ نہ آجائے۔ اور لوگ اس کی اطاعت کریں گے۔
’نیوورلڈٹرا نسلیشن آف دی ہولی سکرپچرز‘ (NWT) نے اس کا ترجمہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے:
The scepter will not turn aside from Judah, neither the commander's staff from between his feet, until Shiloh comes; and to him the obedience of peoples will belong. ۶
عصاے اقتدار یہوداہ سے الگ نہ ہوگا ۔ نہ اس کے قدموں کے درمیان سے کمانڈر کی چھڑی، جب تک کہ شیلوہ نہ آجائے، او رقوموں کی اطاعت اس کی ہوگی۔
’نیو امیریکن سٹینڈرڈ بائبل‘ (NASB)نے اپنے انگریزی ترجمے میں اسے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیاہے:
The scepter shall not depart from Judah nor the rulers staff from between his feet until Shiloh comes and to him shall be the obedience of the people. ۷
عصاے ا قتدار یہوداہ سے الگ نہ ہوگا، نہ اس کے پیروں کے درمیان سے حکمران کی چھڑی ، جب تک کہ شیلوہ نہ آئے، او رقوموں کی اطاعت اس کے لیے ہوگی ۔
’دی لوِنگ بائبل‘میں یہ الفاظ اس طرح درج ہیں:
The scepter shall not depart from Judah until Shiloh comes, whom all people shall obey. ۸
عصاے اقتدار یہوداہ سے جدا نہ ہوگا، جب تک کہ شیلوہ نہ آجائے، جس کی سب لوگ اطاعت کریں گے۔
’ہولی بائبل ایزی ٹو ریڈورشن‘ (ERV)نے ترجمے میں تو لفظ ’شیلوہ‘ استعمال نہیں کیا، لیکن حاشیے میں اس لفظ کا اقرار کیاہے:
Men from Judah\'s family will be kings. The sign that his family rules will not leave his family before the real king comes (in footnote; \'or until Shiloh comes\' etc). Then many people will obey and serve him. ۹
یہوداہ کے خاندان کے آدمی بادشاہ بنیں گے۔ وہ علامت [جس سے ظاہر ہو] کہ اس کاخاندان حکمران ہے اس کے خاندان کو نہیں چھوڑے گی، جب تک کہ اصل بادشاہ نہ آجائے۔ (ذیلی حاشیے میں: یا جب تک کہ شیلوہ نہ آجائے، وغیرہ) تب بہت سے لوگ اس کی اطاعت اور خدمت کریں گے۔
’پشیتا بائبل‘ میں متعلقہ آیت کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:
The sceptre shall not depart from Judah, nor a lawgiver from between his feet, until the coming of the One to whom the sceptre belongs (in footnote Messiah), to whom the gentiles look forward. ۱۰
عصا ے اقتدار یہوداہ سے الگ نہ ہوگا ،نہ اُس کے قدموں کے درمیان سے ایک قانون دان ، جب تک وہ نہیں آجاتاجوعصاے اقتدار کامالک (حاشیہ میں ’مسیحا‘)ہے، جس کی غیر یہودی اقوام منتظر ہیں۔
’دی قماش‘ میں یہ عبارت مندرجہ ذیل الفاظ میں لکھی گئی ہے:
The scepter shall not depart from Judah nor a scholar from among his descendants, untill Shiloh shall arrive and his will be an assemblage of nations. ۱۱
عصاے اقتدار یہوداہ سے الگ نہ ہوگا، نہ اُس کی نسلوں کے درمیان سے ایک صاحبِ علم، جب تک کہ شیلوہ نہ پہنچ جائے اور قوموں کا اجتماع اُس کے لیے ہوگا۔
’دی نیو جیروسیلم بائبل‘ میں ترجمہ تو مختلف ہے، لیکن حاشیے میں لفظ ’شیلوہ ‘کا اقرار کیا گیا ہے:
The scepter shall not pass from Judah, nor the ruler\'s staff from between his feet, until tribute be brought him and the people render him obedience. [Footnote 'g': Text and meaning much disputed; tribute be brought him conj., emendation of vowel sound in MT '(until) Shiloh come'.]. ۱۲
عصاے اقتدار یہوداہ کے ہاتھ سے نہیں نکلے گا، نہ حکمران کی چھڑی، جب تک کہ اس کی خدمت میں خراج نہ لایاجائے او رلوگ اس کی اطاعت قبول نہ کرلیں۔ [حاشیہ’جی‘: متن اورمعانی میں بہت اختلاف ہے: خراج اس کی خدمت میں لایاجائے: مسوراتی متن میں حرکات کی اصلاح: جب تک کہ شیلوہ نہ آ جائے]۔
بائبل کے تراجم میں تحریف کا عمل آج تک بھی کس جرأت سے سرانجام دیا جارہاہے۔ اس کی صرف ایک مثال ہی یہاں پیش کی جاتی ہے۔’کنٹمپریری انگلش ورشن‘ (CEV) میں درج ہے:
You will have power and rule until nations obey you and come bringing gifts. ۱۳
تمھارے پاس اقتدار رہے گا ، اور تم حکومت کرو گے جب تک کہ قومیں تمھاری اطاعت قبول نہ کرلیں، اور تمھارے حضور تحفے اور نذرانے لے کر حاضر نہ ہوں۔
اِس جدید انگریزی ترجمے میں ’شیلوہ‘ اور ’قانون و شریعت دینے والے‘ کا قصہ ہی تمام کر دیا گیا اور جملے کو بالکل لایعنی بنا دیا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ’جب قومیں تمھاری اطاعت قبول کر لیں گی اور تمھارے حضور تحفے اور نذرانے لے کر حاضر ہوں گی‘ تو تمھاری حکومت اور تمھارا اِقتدار مضبوط ہوگایا ختم ہو گا؟ لیکن آیت کے اِطلاق کو اِس کے مصداق سے دُور کرنے کی کوشش میں فاضل مترجم کو یہ بھی خیال نہ رہا کہ وہ جملے کو لایعنی بنا رہا ہے۔ سچ ہی ہے کہ’دروغ گوے راحافظہ نہ باشد‘۔
حضرت یعقوبؑ کی اپنے بیٹوں کے لیے آخری وصیت ہونے کی حیثیت سے اس باب کی بڑی اہمیت ہے۔ ’توراہ :اے ماڈرن کمنٹری‘ میں درج ہے:
The words of a dying man are as binding as a deed which is written and delivered (Talmud 16). ۱۴
آدمی کے مرتے وقت کے الفاظ کی پابندی اتنی ضروری ہے جتنی کہ ایک معاہدے کی، جسے لکھ کر حوالے کر دیا گیا ہو۔
اس لحاظ سے آیت کے الفاظ گہرے مطالعے کے متقاضی ہیں۔ اس پیشین گوئی کے الفاظ کافی واضح ہیں اور ان کا مدلول تلاش کرنے میں کوئی دِقّت نہیں ہونی چاہیے، لیکن یہودی اور مسیحی علما اور مفسرین نے اس میں طرح طرح کی الجھنیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروٹسٹنٹ ’کتابِ مقدس‘کے مطابق عبارت یہ ہے (کیتھولک اردو’کلامِ مقدس‘ میں بھی الفاظ کے معمولی سے فرق کے ساتھ یہی مفہوم بنتا ہے):
یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا۔ جب تک شیلوہ نہ آئے، اور قومیں اس کی مطیع ہوں گی۔
بائبل کے اردو ترجمے کی استنادی حیثیت بہت زیادہ قابلِ اعتماد نہیں۔ بائبل کے تراجم میں اس کا وہ انگریزی ترجمہ جسے ’کنگ جیمز ورشن‘(KJV) کہاجاتاہے، زیادہ مستند مانا جاتا ہے ، بلکہ اس کا تونام ہی اوتھورائزڈ ورشن (AV)یعنی ’مستند ترجمہ‘ ہے، جو اوپر نقل بھی کیاگیاہے، اس لیے اسی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
حضرت یعقوبؑ اپنے بیٹوں کے سامنے ان کی خوبیاں اور خامیاں بیان کرتے ہوئے اپنے بیٹے یہوداہ کے اوصاف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی حکومت کی پیشین گوئی کرتے ہوئے اس حکومت کے خاتمے کی پیشین گوئی بھی کردیتے ہیں۔
آیت کا پہلا جملہ ہے: ’یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی‘۔ اس کی ابتدا ہی میں جو لفظ ’سلطنت‘ لکھاگیا ہے، اس کے لیے ’کنگ جیمز ورشن‘ میں ( اور بیش تر دوسرے انگریزی تراجم میں بھی ) Sceptre کا لفظ درج ہے۔ انگریزی زبان میں یہ اس عصا کے لیے استعمال ہوتاہے جو اقتدار اور حکمرانی کی علامت ہے، اس لیے اپنے مدلول و مفہوم کے اعتبار سے اسے سلطنت بھی کہہ دیتے ہیں۔ ’کنگ جیمز ورشن‘ میں اس کے لیے الفاظ ہیں: ’ The sceptre shall not depart from Judah‘ اس لیے گفتگو کی بنیاد اسی ترجمے پر رکھناچاہیے۔
انگریزی ترجمے میں پہلا لفظ ’ Sceptre‘ہے جس کے معنی تو ’عصا ے اقتدار ‘ہی ہیں، جو سلطنت اور حکومت و اقتدار کی علامت کے طور پر بادشاہ یاحکمران اپنے ہاتھ میں یابغل کے نیچے رکھتے ہیں، لیکن اپنے حقیقی مدلول و مفہوم کے پیش نظر اس کے لیے سلطنت کا لفظ بھی بولا جاتاہے۔ مذکورہ جملے میں حضرت یعقوبؑ اپنے بیٹے یہوداہ کو بشارت دے رہے ہیں کہ اس کی نسل میں طویل عرصے تک ( جس کی حدود کا بیان آگے کیاگیاہے) عصا ے اقتدار، یعنی سلطنت برقرار رہے گی۔ چنانچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قریباً گیارھویں صدی قبل مسیح کے اختتام پر یہوداہ کی نسل کی حکومت ، جس کے پہلے حکمران حضرت داو‘دؑ تھے، شروع ہوئی۔ قریباً ایک صدی تک یہ دولتِ مشترکہ کے طور پر قائم رہی۔ اس کے بعد اگرچہ یہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی، لیکن سلطنت یہودیہ کو ہیکل سلیمانی کی وجہ سے مرکزی اہمیت حاصل رہی۔ ۵۸۶ق م میں بابلی سلطنت کے حکمران نبیو کدنضر کے ہاتھوں اس کا خاتمہ ہوگیا، اور یہود کا دورِ اسیرئ بابل شروع ہوا۔ اس دوران میں آلِ یہوداہ کو کسی حد تک داخلی خود مختاری حاصل تھی۔ بابل والوں نے نہ توانھیں غلام بنایا اورنہ انھیں اپنی شریعت پر قائم رہنے سے منع کیا، بلکہ دینی و علمی اعتبار سے یہ دور یہود کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا۔
۵۳۹ق م میں بابل کی سلطنت زوال کا شکار ہوگئی، او رفارسیوں کا دور شروع ہوا۔ یہ دور یہود کے لیے بہت ساز گار ثابت ہوا، اور اس کے پہلے حکمران سائرس نے انھیں واپس یروشلم جانے اوروہاں اپناہیکل تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ۔ اس دور میں یہودیہ کی حکومت کو ایک طرح کی مکمل داخلی خود مختاری حاصل رہی اور عصاے حکمرانی ان سے موقوف نہیں ہوا۔ بعد کے شامی، مصری، یونانی اور رومی ادوارِ حکومت میں بھی کسی نہ کسی رنگ میں یہ اقتدار میں شریک رہے، اور ان کا عصاے حکمرانی کلی طورپر موقوف نہ ہوا۔ ۷۰عیسوی میں اگرچہ رومی جرنیل ٹائیٹس نے جو بعد میں جلد ہی رومی حکمران بن گیا، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کی اینٹ سے اینٹ بجادی، لیکن کبھی منتشر ہوکر اورکبھی مقامی طور پر یہودکی مقاومت برقرار رہی، یہاں تک کہ یروشلم کی تباہی سے قریباً ایک صدی بعد تک یہود اپنی آخری جنگ لڑتے نظر آتے ہیں۔
_______
1. The New Oxford Annotated Bible, 3rd Edn., ed. Michael D. Coogan (Oxf. Uni. Press, 2001), footnote page 78.
۲۔ ’کتابِ مقدس‘ ،نظرثانی شدہ ترجمہ۲۰۰۲ء، پیدایش۴۹:۱۰۔
۳۔ ’کلامِ مقدس‘ یعنی کیتھولک اُردو بائبل(روما :سوسائٹی آف سینٹ پال،۱۹۵۸)، صفحہ۶۲۔
۴۔ ’دی ہولی بائبل‘، پیدایش(Genesis)۹، ۱۰۔کنگ جیمز ورشن (KJV):اسے مستند ترجمہ (Authorised Version) یا A.V بھی کہتے ہیں۔ یہ ۱۶۱۱ء میں مکمل ہوا تھا۔
5. Revised Barkeley Version (RBV), (The Gideons International, Thondervan Publishing House, 1974 Edn.), p. 41.
6. New World Translation (NWT) of the Holy Scriptures, rendered from the original languages by the NW Bible Translation Committee, Revised 1984 (NY: Watch Tower Bible and Tract Society) p. 74.
7. New American Standard Bible (NASB), (Cambridge: Cambridge University Press, 1977), p. 67.
8. The Living Bible (The Way), (Illinois: Tyndale House Publishers, Wheaton, 1976), p. 46.
9. Holy Bible, Easy to Read Version: Translated from the Original Languages (Bangalore: WBTC India, P.O. Box 4878, 2000), p.57.
10. The Bible from Ancient Eastern Manuscripts (...) from the Peshitta, the Authorized Bible of the Church of the East, tr. George M. Lamsa (Landon & NY: Collins Clear-Type Press, 1957), p. 63.
11. The Chumash, ed. Rabbi Nosson Scherman Rabbi Meir. Zlotowitz (NY: Masorah Pubications Ltd, Brooklyn, 2007), p. 279.
12. The New Jerusalem Bible (NJB) (Bombay: The Bombay Saint Paul Society. TPS III, Bandra, Bombay, 1985) p. 77.
13. Contemporery English Version (CEV),. (NY: Amercian Bible Society, 1995), 60.
14. W. Gunther Plaut, Torah A Modern Com., 1981, p. 306.
____________